EN हिंदी
اک مجسم درد ہوں اک آہ ہوں | شیح شیری
ek mujassam dard hun ek aah hun

غزل

اک مجسم درد ہوں اک آہ ہوں

حمدون عثمانی

;

اک مجسم درد ہوں اک آہ ہوں
پھر بھی زیب و زینت افواہ ہوں

میں نے دنیا کی پسند اوڑھی نہیں
کچھ بھی ہوں پھر بھی تو حق آگاہ ہوں

صد لحم و استخواں ہوتے ہوئے
ہر نفس اب بھی ترے ہم راہ ہوں

کرب وحشت غم مسائل کے طفیل
آج تک زندہ بحمد اللہ ہوں

میرے نقش پا سے نکلے راستے
لوگ پھر بھی کہتے ہیں گمراہ ہوں

پرورش پاتی ہے جس سے تیرگی
میں وہی فرزند مہر و ماہ ہوں

میکدے کی رہ سے تجھ کو پا لیا
لوگ کہتے ہیں کہ میں گمراہ ہوں