اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا
تجھ سے کافر کو تو میں اپنا خدا دے دوں گا
جستجو بھی مرا فن ہے مرے بچھڑے ہوئے دوست
جو بھی در بند ملا اس پہ صدا دے دوں گا
ایک پل بھی ترے پہلو میں جو مل جائے تو میں
اپنے اشکوں سے اسے آب بقا دے دوں گا
رخ بدل دوں گا صبا کا ترے کوچے کی طرف
اور طوفان کو اپنا ہی پتا دے دوں گا
جب بھی آئیں مرے ہاتھوں میں رتوں کی باگیں
برف کو دھوپ تو صحرا کو گھٹا دے دوں گا
تو کرم کر نہیں سکتا تو ستم توڑ کے دیکھ
میں ترے ظلم کو بھی حسن ادا دے دوں گا
ختم گر ہو نہ سکی عذر تراشی تیری
اک صدی تک تجھے جینے کی دعا دے دوں گا
غزل
اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا
احمد ندیم قاسمی