اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردیٔ مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصار آب میں
حاصل جہد مسلسل مستقل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکاں میں خواہش سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیرؔ اب اس قدر خاموشیاں یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارۂ سیماب میں
غزل
اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
منیر نیازی