اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی
نام میں تیرے یہ تاثیر کہاں سے آئی
پہلوئے ساز سے اک موج ہوا گزری تھی
یہ چھنکتی ہوئی زنجیر کہاں سے آئی
دم ہمارا تو رہا حلقۂ لب ہی میں اسیر
بوئے گل یہ تری تقدیر کہاں سے آئی
اہل ہمت کے مٹانے سے تو فارغ ہو لے
دہر کو فرصت تعمیر کہاں سے آئی
گو ترستا ہے ابھی تک تری تحریر کو دل
پھر بھی جانے تری تصویر کہاں سے آئی
یوں ہی ہو جاتا ہے قسمت سے کوئی غم بیدار
عشق کے ہاتھ میں تدبیر کہاں سے آئی
کس طرف جاتے ہیں یارو یہ بگڑتے ہوئے نقش
یہ سنورتی ہوئی تصویر کہاں سے آئی
لحن بلبل کا چلا کون سے گل پر افسوں
صرف اک طرز ہے تاثیر کہاں سے آئی
پڑ گیا سوز سخن ہاتھ ہمارے کیونکر
خاک ہونے کو یہ اکسیر کہاں سے آئی
غزل
اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی
شان الحق حقی