EN हिंदी
اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا | شیح شیری
ek lamha-e-visal tha wapas na aa saka

غزل

اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

رئیس وارثی

;

اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا
وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آ سکا

ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ
میرا جو ہم خیال تھا واپس نہ آ سکا

شاید مرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ
زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آ سکا

شاید ہجوم صدمۂ فرقت کے گھاؤ سے
وہ اس قدر نڈھال تھا واپس نہ آ سکا

شاید میں اس کو دیکھ کے سب کو بھلا ہی دوں
اس کو یہ احتمال تھا واپس نہ آ سکا

کتنے خیال روپ حقیقت کا پا گئے
جو مرکز خیال تھا واپس نہ آ سکا

مجھ کو مرے وجود سے جو کر گیا جدا
کیسا وہ با کمال تھا واپس نہ آ سکا

ہر دم رئیسؔ وہ تو نظر کے ہے سامنے
تیرا تو یہ خیال تھا واپس نہ آ سکا