اک کتب خانہ ہوں اپنے درمیاں کھولے ہوئے
سب کتابیں صفحۂ حرف زیاں کھولے ہوئے
اک جدائی پر ہوں حیراں جس طرح کوئی پہاڑ
قتل پر ہابیل کے اپنا دہاں کھولے ہوئے
بد دعائے نارسائی کام اپنا کر چکی
اپنی ساری پرتیں ہے کیوں آسماں کھولے ہوئے
بند رکھو مٹھیوں کو ریت اڑتی ہے یہاں
جانے کون آ جائے دست رائیگاں کھولے ہوئے
پل دو پل کا ساتھ ہے اب روشنی کا چل پڑیں
شام ہے اک کتبۂ قبر جواں کھولے ہوئے
ساحلوں پہ لکھی تحریر ہوا پڑھتا بھی کون
کشتیاں تھیں خواہشوں کے بادباں کھولے ہوئے
غزل
اک کتب خانہ ہوں اپنے درمیاں کھولے ہوئے
مصور سبزواری