EN हिंदी
اک خواب تھی زندگی ہماری | شیح شیری
ek KHwab thi zindagi hamari

غزل

اک خواب تھی زندگی ہماری

مصحف اقبال توصیفی

;

اک خواب تھی زندگی ہماری
پھر آنکھ نہیں کھلی ہماری

دنیا سے بھی پھر نہیں ملے ہم
وہ بھی تو کبھی نہ تھی ہماری

دن ڈھل گیا خواب دیکھنے میں
کٹ جائے گی رات بھی ہماری

پلکوں پہ یہ پھول آنسوؤں کے
صحرا کی یہ ریت بھی ہماری

اک دھیان کی لہر نے ڈبویا
اک یاد نہ ہو سکی ہماری

ٹاپوں کی صدا سی اس کے غم کی
بے تیغ سپاہ تھی ہماری

کب ہو گئی میرے قد سے اونچی
دیوار یہ بیچ کی ہماری

دیکھا تو ہر آئینے میں ہم تھے
خود سے ہوئی بات بھی ہماری

آئے ہو تو یہ غزل بھی سن لو
بے وقت کی راگنی ہماری