اک خواب چھن سے ٹوٹ کے آنکھوں میں گڑ گیا
اتنا ہنسے کہ چیخ کے رونا بھی پڑ گیا
یہ کس نے اپنی ٹیس ورق پر اتار دی
یہ کون اپنے دل کو سیاہی سے جڑ گیا
اب تو خیال یار سے ہوتا ہے خوف سا
چہرہ کسی کی یاد کا کتنا بگڑ گیا
لہروں کا شور تھم گیا طوفان سو گئے
کشتی کے ڈوبتے ہی سمندر اجڑ گیا
جب تک ہمارے نام سے واقف ہوا جہاں
تب تک ہمارے نام کا پتھر اکھڑ گیا
کر تو لیا ہے درد کی لہروں کا سامنا
لیکن ہمارے ظرف کا بخیہ ادھڑ گیا
اس کو ٹھہر کے دیکھتے حسرت ہی رہ گئی
وہ دفعتاً ملا تھا اچانک بچھڑ گیا
غزل
اک خواب چھن سے ٹوٹ کے آنکھوں میں گڑ گیا
منیش شکلا