اک کھلا میداں تماشا گاہ کے اس پار ہے
جس میں ہر رقاص کا اک آئنہ تیار ہے
ریت کے ذریعے ہماری منزلیں اور ان کی ہم
پس یہاں سمت سفر کا جاننا بے کار ہے
رات اور طوفان ابر و باد میرے ہر طرف
دور لو دیتی ہوئی اک مشعل رخسار ہے
پھر کبھی اٹھے تو مل لیں گے نہ اتنے دکھ اٹھا
موت سے ہوتا ہوا اک راستہ ہموار ہے
اس طرح باب نصیحت کھول کر بیٹھے ہیں لوگ
جیسے خیر و شر کا دنیا میں کوئی معیار ہے
لہر وہ آئی کہ ہم ہیں اور نشیب گمرہی
غم کے آگے بند اب کے باندھنا دشوار ہے
سلسلہ آواز کا دیکھو کہ خوشے سرسرائے
پھر کھنک ہے دھات کی پھر سانپ کی پھنکار ہے
غزل
اک کھلا میداں تماشا گاہ کے اس پار ہے
محمد اظہار الحق