EN हिंदी
اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر | شیح شیری
ek KHalq jo har samt se aai tere dar par

غزل

اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر

شرف مجددی

;

اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر
آیا نظر انداز خدائی ترے در پر

تھی جس کی تمنا دل مشتاق کو ہر دم
وہ چیز اگر پائی تو پائی ترے در پر

عشاق کے آگے نہ لڑا غیروں سے آنکھیں
ڈر ہے کہ نہ ہو جائے لڑائی ترے در پر

دیکھی جو یہاں آ کے جھڑی ابر کرم کی
سب دل کی لگی ہم نے بجھائی ترے در پر

اس نفس ہی کمبخت نے روکا تھا شرفؔ کو
دشوار نہ تھی ورنہ رسائی ترے در پر