اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر
آیا نظر انداز خدائی ترے در پر
تھی جس کی تمنا دل مشتاق کو ہر دم
وہ چیز اگر پائی تو پائی ترے در پر
عشاق کے آگے نہ لڑا غیروں سے آنکھیں
ڈر ہے کہ نہ ہو جائے لڑائی ترے در پر
دیکھی جو یہاں آ کے جھڑی ابر کرم کی
سب دل کی لگی ہم نے بجھائی ترے در پر
اس نفس ہی کمبخت نے روکا تھا شرفؔ کو
دشوار نہ تھی ورنہ رسائی ترے در پر

غزل
اک خلق جو ہر سمت سے آئی ترے در پر
شرف مجددی