اک کار گراں ہے کھیل نہیں
زندگی امتحاں ہے کھیل نہیں
ہر قدم سوچ کر یہاں رکھنا
دشت عمر رواں ہے کھیل نہیں
یہ مٹی ہے نہ مٹ سکے گی کبھی
اردوئے سخت جاں ہے کھیل نہیں
تیرگی شب کی کیوں نہ دم توڑے
زخم دل ضو فشاں ہے کھیل نہیں
کچھ بھی ممکن ہے دیکھیے کیا ہو
لطف چارہ گراں ہے کھیل نہیں
جانے لاوا سلگ اٹھے کس وقت
دل کہ آتش فشاں ہے کھیل نہیں
کون سمجھے گا ان کی بات شفیقؔ
آئنوں کی زباں ہے کھیل نہیں

غزل
اک کار گراں ہے کھیل نہیں
شفیق دہلوی