اک جستجو سدا ہی سے ذہن بشر میں ہے
جب سے ملی زمین مسلسل سفر میں ہے
ہر چند میرے ساتھ اداسی سفر میں ہے
روشن چراغ شوق مگر چشم تر میں ہے
ملاح کہہ رہا ہے کہ ساحل ہے بس قریب
لیکن مجھے پتہ ہے کہ کشتی بھنور میں ہے
تم سے کبھی جو بول نہ پایا میں ایک بات
بن کر خلش وہ آج بھی میرے جگر میں ہے
بربادیوں کی زد پہ فقط شاخ گل نہیں
گلشن تمام نرغۂ برق و شرر میں ہے
جب سے میں ان کے حلقۂ بیعت میں آ گیا
نایابؔ ایک روشنی فکر و نظر میں ہے
غزل
اک جستجو سدا ہی سے ذہن بشر میں ہے
جہانگیر نایاب