EN हिंदी
اک جل تھل تھی کل تک یہ زمیں یہ دشت بھی کل تک دریا تھے | شیح شیری
ek jal-thal thi kal tak ye zamin ye dasht bhi kal tak dariya the

غزل

اک جل تھل تھی کل تک یہ زمیں یہ دشت بھی کل تک دریا تھے

اکبر حیدری

;

اک جل تھل تھی کل تک یہ زمیں یہ دشت بھی کل تک دریا تھے
یہ شور تھا کل اک سناٹا یہ شہر بھی کل تک صحرا تھے

آغاز اپنا وحشت بصری انجام اپنا شوریدہ سری
ہم آج بھی ہیں بدنام بہت ہم کل بھی نہایت رسوا تھے

تنہائی ذات کا سایہ ہے تنہائی اپنا ورثہ ہے
ہم آج بھی ہیں تنہا تنہا ہم کل بھی تنہا تنہا تھے

ماضی کے خرابوں میں بھی کہیں لو دیتا رہا سورج اپنا
ماضی کے خرابوں میں بھی ہم اک خواب جہاں‌ فردا تھے

اپنا ہی تو ہے شہکار عمل تہذیب کا یہ زنداں اکبرؔ
ہم آج ہیں شہروں کے قیدی کل تک آوارۂ صحرا تھے