EN हिंदी
اک جفا جو سے محبت ہو گئی | شیح شیری
ek jafa-ju se mohabbat ho gai

غزل

اک جفا جو سے محبت ہو گئی

شوق بہرائچی

;

اک جفا جو سے محبت ہو گئی
ہائے یہ کیسی حماقت ہو گئی

ہو گیا جس پر مسیحا مہرباں
بند اس کے دل کی حرکت ہو گئی

آ گئی ان کی جوانی آ گئی
ہو گئی برپا قیامت ہو گئی

یہ تصور کی کرشمہ سازیاں
دیکھا جس شے کو وہ عورت ہو گئی

لیجے وہ اٹھی نگاہ التفات
لیجے تکمیل حماقت ہو گئی

جب نگاہ ناز کمسن کی اٹھی
ننھی منی اک قیامت ہو گئی

جب ہوئے وہ مائل عہد وفا
بڑھ کے مانع ان کی لکنت ہو گئی

کیا کرے بچاری دزدیدہ نگاہ
چوری کرنا اس کی فطرت ہو گئی

یہ عنایات مسلسل الاماں
دگنی اور تگنی مصیبت ہو گئی

منہ لگی عمال عہد نو کے بھی
کسی قدر گستاخ رشوت ہو گئی

میں نے یوں دل کو بنایا آئینہ
آئینہ گر کو بھی حیرت ہو گئی

لاکھ ظالم نے چھپائے اپنے عیب
شوقؔ اس کی پھر بھی شہرت ہو گئی