اک انقلاب کہ یکسر تھا اس کے جاتے ہی
کہ دل لہو نہیں پتھر تھا اس کے جاتے ہی
وہ عمر بھر مجھے جس سے رہائی دے نہ سکا
میں اس حصار کے باہر تھا اس کے جاتے ہی
اسی کے دم سے تھا قائم نظام مے خانہ
کہیں سبو کہیں ساغر تھا اس کے جاتے ہی
مجھے تو پہلے ہی اشکوں نے راستہ نہ دیا
غبار راہ بھی سر پر تھا اس کے جاتے ہی
تمام شہر اک تصویر بن گیا تھا شہابؔ
عجیب دید کا منظر تھا اس کے جاتے ہی
غزل
اک انقلاب کہ یکسر تھا اس کے جاتے ہی
مصطفی شہاب