EN हिंदी
اک انفعال کو طاقت سمجھ رہے ہو تم | شیح شیری
ek infial ko taqat samajh rahe ho tum

غزل

اک انفعال کو طاقت سمجھ رہے ہو تم

جمیلؔ مظہری

;

اک انفعال کو طاقت سمجھ رہے ہو تم
سوال یہ ہے کہ کس طرح سوچتے ہو تم

بہار آگ نہ دے گی تمہارے چولہوں کو
یہ اور بات کہ اس سے بہل گئے ہو تم

دیار وہم و گماں میں نہ اب حرم ہے نہ دیر
اجڑی چکی ہے وہ بستی جدھر چلے ہو تم

دیا نہ عشق نے جب کچھ تو عقل کیا دے گی
اب اس سے مانگتے ہو چین باؤلے ہو تم

جبین شوق کو اپنی کہاں جھکانا تھا
کہاں جھکی ہے ضرورت کہاں جھکے ہو تم

پسند آئے گی کیوں اپنے دیس کی کوئی چیز
بدیسیوں کے نوالے پہ جی رہے ہو تم

نہ مل سکا جسے ایندھن جلے گی آگ وہ کیا
دل جمیلؔ کو ناحق کریدتے ہو تم