اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے
الفاظ جو ذہن میں موزوں تھے ہونٹوں کے کنارے آ پہنچے
حالات غم دل کہہ نہ سکے اور درد دروں بھی سہ نہ سکے
آنسو جو حصار چشم میں تھے پلکوں کے سہارے آ پہنچے
منجھدار میں تھے اور ڈر یہ تھا کہ ڈوب ہی جائیں گے اب ہم
موجوں میں جو لہرائی کشتی تنکوں کے سہارے آ پہنچے
ہم جوش جوانی میں آ کر اک لا محدود سفر میں تھے
معلوم ہوا منزل یہ نہ تھی جب گھاٹ کنارے آ پہنچے
اک عمر گزاری تھی ہم نے مظلوموں کی ہی حمایت میں
جب گوشہ نشینی کی ٹھانی پھر ظلم کے مارے آ پہنچے
بچپن میں بہت دکھ ہوتا تھا مظلوم کی آہ و زاری پر
ہوتے ہی جواں بہلانے کو دنیا کے نظارے آ پہنچے
دنیا کے حوادث نے اتنا پامال کیا ہم کو جوہرؔ
بچنے کی کوئی امید نہ تھی قسمت کے ستارے آ پہنچے

غزل
اک ہوک سی جب دل میں اٹھی جذبات ہمارے آ پہنچے
بی ایس جین جوہر