اک حسن بے مثال کے جو روبرو ہوں میں
محسوس ہو رہا ہے خود اپنا عدو ہوں میں
اپنی گرفت شوق سے نکلوں تو کس طرح
پھیلا ہوا جہان میں ہر ایک سو ہوں میں
مجھ پہ تری حیات کا دار و مدار ہے
جذبوں سے جھانکتا ہوا زندہ لہو ہوں میں
گونجوں گا تیرے ذہن کے گنبد میں رات دن
جس کو نہ تو بھلا سکے وہ گفتگو ہوں میں
ہر صبح ایک معرکۂ کربلا سہی
ہر شام اپنے دوستوں میں سرخ رو ہوں میں
پوچھوں میں کس سے عالم امکاں میں کس لیے
اپنے ہی نقش پا کی طرح کو بہ کو ہوں میں
سیفیؔ میں اپنے آپ میں نیلام ہو گیا
کس کو خبر تھی شہر میں اک خوبرو ہوں میں
غزل
اک حسن بے مثال کے جو روبرو ہوں میں
بشیر سیفی