اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی
دیر سے خرابوں میں ہے اسیر تنہائی
دل کی شام کی صورت زخم زخم سناٹا
جاں کہ شور وحشت میں صبح کی تمنائی
کاکل خزاں تیرے بے سبب الجھنے سے
چہرۂ بہاراں پر دیکھ تیرگی چھائی
تھی تری نگاہوں کے سیل تیرگی میں گم
کب ترے اجالے میں خود کو میں نظر آئی
قرب تھا کہ آئینہ جاں تلک بلاتا تھا
ہجر نے بھلا دی ہے صورت شناسائی
باب رنگ غنچوں کے پیرہن پہ وا کر کے
کھل رہی ہے شاخوں پر درد کی پذیرائی
خوش ہوں اک ستارے پر دیکھ کر مکاں اپنا
رات میری بینائی کون سی نظر لائی

غزل
اک ہجوم گریہ کی ہر نظر تماشائی
شاہدہ تبسم