EN हिंदी
اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لے جائے گی | شیح شیری
ek hawa uTThegi sare baal-o-par le jaegi

غزل

اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لے جائے گی

سجاد بابر

;

اک ہوا اٹھے گی سارے بال و پر لے جائے گی
یہ نئی رت اب کے سب کچھ لوٹ کر لے جائے گی

ایک خدشہ پہلے دروازے سے اپنے ساتھ ہے
راستوں کی دل کشی خوئے سفر لے جائے گی

ایک چوراہے پہ لا کر چھپ گیا ہے آفتاب
کوئی آوارہ کرن اب در بدر لے جائے گی

اک توقع لے کے ٹکرایا ہوں ہر رہرو کے ساتھ
کوئی جھنجھلائی ہوئی ٹھوکر تو گھر لے جائے گی

دل کے کالے غار میں سانسوں کے پتھر جب گرے
ایک ساعت کی چمک صدیوں کے ڈر لے جائے گی

فکر کو سجادؔ پہنائے پسندیدہ لباس
یہ نہیں سوچا کہ وہ گہرا اثر لے جائے گی