اک ہرا جزیرہ بھی پانیوں سے آگے ہے
اس کی دید کی ساعت رت جگوں سے آگے ہے
کون سے مناظر میں اس کو ڈھونڈنے نکلیں
وہ گمان سے ہٹ کر حیرتوں سے آگے ہے
بادبان کی آنکھیں خواب کون سا دیکھیں
کون اک کنارا سا ساحلوں سے آگے ہے
عکس جھلملاتے ہیں ایک سبز قریے کے
جو جلے درختوں کے جنگلوں سے آگے ہے
نام کیا لکھیں اس کا سب حروف اس کے ہیں
کیا اسے تراشیں وہ خواہشوں سے آگے ہے
کون سی خلاؤں میں کس افق کو جاتے ہو
جو قدم اٹھاتے ہو منزلوں سے آگے ہے

غزل
اک ہرا جزیرہ بھی پانیوں سے آگے ہے
قیوم طاہر