EN हिंदी
اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے | شیح شیری
ek din KHud ko apne pas biThaya humne

غزل

اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے

شارق کیفی

;

اک دن خود کو اپنے پاس بٹھایا ہم نے
پہلے یار بنایا پھر سمجھایا ہم نے

خود بھی آخر کار انہی وعدوں سے بہلے
جن سے ساری دنیا کو بہلایا ہم نے

بھیڑ نے یوں ہی رہبر مان لیا ہے ورنہ
اپنے علاوہ کس کو گھر پہنچایا ہم نے

موت نے ساری رات ہماری نبض ٹٹولی
ایسا مرنے کا ماحول بنایا ہم نے

گھر سے نکلے چوک گئے پھر پارک میں بیٹھے
تنہائی کو جگہ جگہ بکھرایا ہم نے

ان لمحوں میں کس کہ شرکت کیسی شرکت
اسے بلا کر اپنا کام بڑھایا ہم نے

دنیا کے کچے رنگوں کا رونا رویا
پھر دنیا پر اپنا رنگ جمایا ہم نے

جب شارقؔ پہچان گئے منزل کی حقیقت
پھر رستہ کو رستہ بھر الجھایا ہم نے