اک دل میں تھا اک سامنے دریا اسے کہنا
ممکن تھا کہاں پار اترنا اسے کہنا
ہجراں کے سمندر میں ہیولیٰ تھا کسی کا
امکاں کے بھنور سے کوئی ابھرا اسے کہنا
اک حرف کی کرچی مرے سینے میں چھپی تھی
پہروں تھا کوئی ٹوٹ کے رویا اسے کہنا
مدت ہوئی خورشید گہن سے نہیں نکلا
ایسا کہیں تارا کوئی ٹوٹا اسے کہنا
جاتی تھی کوئی راہ اکیلی کسی جانب
تنہا تھا سفر میں کوئی سایا اسے کہنا
ہر زخم میں دھڑکن کی صدا گونج رہی تھی
اک حشر کا تھا شور شرابہ اسے کہنا

غزل
اک دل میں تھا اک سامنے دریا اسے کہنا
یاسمین حبیب