EN हिंदी
اک دل کی خاطر اتنے تو فتنے کبھی نہ تھے | شیح شیری
ek dil ki KHatir itne to fitne kabhi na the

غزل

اک دل کی خاطر اتنے تو فتنے کبھی نہ تھے

فراز سلطانپوری

;

اک دل کی خاطر اتنے تو فتنے کبھی نہ تھے
ہوتے ہر اک قدم پہ یہ دھوکے کبھی نہ تھے

پھولوں کی تازگی میں اداسی ہے شام کی
سائے غموں کے اتنے تو گہرے کبھی نہ تھے

باد صبا سے پوچھیے آخر ہے بات کیا
چہرے گلوں کے اس قدر اترے کبھی نہ تھے

دامن میں ہر سحر کے جو منظر ہے شام کا
نقشے جہاں کے ایسے تو دیکھے کبھی نہ تھے

اپنی طرف بھی دیکھا تو حائل وہ ہو گئے
آنکھوں میں بن کے خواب جو اترے کبھی نہ تھے