اک دل کی خاطر اتنے تو فتنے کبھی نہ تھے
ہوتے ہر اک قدم پہ یہ دھوکے کبھی نہ تھے
پھولوں کی تازگی میں اداسی ہے شام کی
سائے غموں کے اتنے تو گہرے کبھی نہ تھے
باد صبا سے پوچھیے آخر ہے بات کیا
چہرے گلوں کے اس قدر اترے کبھی نہ تھے
دامن میں ہر سحر کے جو منظر ہے شام کا
نقشے جہاں کے ایسے تو دیکھے کبھی نہ تھے
اپنی طرف بھی دیکھا تو حائل وہ ہو گئے
آنکھوں میں بن کے خواب جو اترے کبھی نہ تھے

غزل
اک دل کی خاطر اتنے تو فتنے کبھی نہ تھے
فراز سلطانپوری