اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں
خوابوں کے درمیان خبر چن رہا ہوں میں
کیا دل خراش کام ہوا ہے مرے سپرد
اک زرد رت کے برگ و ثمر چن رہا ہوں میں
اک خواب تھا کہ ٹوٹ گیا خوں کے حبس میں
اب تند دھڑکنوں کے بھنور چن رہا ہوں میں
کیا جانے اس کے خط میں دھواں کیا ہے حرف حرف
مفہوم چن رہا ہوں اثر چن رہا ہوں میں
اے رمز آشنائے تجسس ادھر بھی دیکھ
اندھے سمندروں سے گہر چن رہا ہوں میں
وہ مستقل غبار ہے چاروں طرف کہ اب
گھر کے تمام روزن و در چن رہا ہوں میں
بانیؔ نظر کا زاویہ بدلا ہے اس طرح
اب ہر فضا سے چیز دگر چن رہا ہوں میں
غزل
اک ڈھیر راکھ میں سے شرر چن رہا ہوں میں
راجیندر منچندا بانی