اک دھن کو ایک دھن سے الگ کر لوں اور گاؤں
سانسوں کا اک چراغ کہیں دھر لوں اور گاؤں
گندھار کی شعاع چنوں پھر شعاعوں سے
یاقوت سطح سنگ سے چن کر لوں اور گاؤں
سرچشمۂ وجود کو ہرگز نہ چھیڑوں میں
کوئل سے اک ارادۂ تیور لوں اور گاؤں
بھیروں میں دن نکلتا دکھاؤں میں دہر کو
اور صبح تک چراغوں کی لو کر لوں اور گاؤں
اور پھیل جاؤں چاروں طرف بازگشت سا
لب پر ترا وظیفۂ ازبر لوں اور گاؤں
اور دشت میرے ساتھ رہے بہتا میگھ میں
بارش میں اپنے واسطے اک گھر لوں اور گاؤں
کوئل پکارتی رہے جامن کے پیڑ پر
من میں کسی نفس کا سبو بھر لوں اور گاؤں
کلیان کے اجالے میں پھرتی ہے شب کہیں
میں شام ہی سے کاندھے پہ چادر لوں اور گاؤں
آ جاؤں اپنی گردش سیارگاں کو میں
چکر پہ ایک دوسرا چکر لوں اور گاؤں
یہ وقت ہے بہائے ہوئے کائنات کو
ندی کی لہروں سے کوئی جھالر لوں اور گاؤں
رہتی ہے بسکہ راکھ زمانوں کی طاق پر
میں بھی چراغ ہجر کا چکر لوں اور گاؤں
جلنے لگے جو شہر تو سارا انڈیل دوں
جا کر کسی کنارے سے پھر بھر لوں اور گاؤں
آنگن میں جاگتے ہیں گل و لالہ رات بھر
میں بھی کسی کے کانٹوں کا بستر لوں اور گاؤں
آواز چکنا چور ہو شور لحد کے بیچ
سنگ مزار سے کوئی ٹھوکر لوں اور گاؤں
ملنا کسی سے رخنۂ آوارگی تو ہے
مل کر کسی سے دوسرا محور لوں اور گاؤں
رخصت کے وقت ٹوٹ گیا جو پہاڑ تھا
سینے میں تیرے پاؤں کے کنکر لوں اور گاؤں
لگنے لگا ہجوم شر انگیزی ہر طرف
یکسوئیٔ خمار کو ہی سر لوں اور گاؤں
جو جو پرندہ بیٹھا ہوا تھا سو اڑ گیا
پہلو میں اپنا خالی سا پنجر لوں اور گاؤں
دن رات میں بڑے بڑے آتے ہیں انقلاب
لیکن میں تیرا نام برابر لوں اور گاؤں
جھکنے لگی ہے قوس قزح صبح دم نویدؔ
یہ ٹوکری گلاب کی سر پر لوں اور گاؤں
غزل
اک دھن کو ایک دھن سے الگ کر لوں اور گاؤں
افضال نوید