EN हिंदी
اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو | شیح شیری
ek dasht-e-be-aman ka safar hai chale-chalo

غزل

اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو

وحید اختر

;

اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو
رکنے میں جان و دل کا ضرر ہے چلے چلو

حکام و سارقین کی گو رہگزر ہے گھر
پھر بھی برائے بیت تو در ہے چلے چلو

مسجد ہو مدرسہ ہو کہ مجلس کہ مے کدہ
محفوظ شر سے کچھ ہے تو گھر ہے چلے چلو

ظلمت ہے یاں بھی واں بھی اندھیرے ہی ہوں تو کیا
نور اک ورائے حد نظر ہے چلے چلو

اترا کنار بحر عطش ایک قافلہ
ختم اس پہ تشنگی کا سفر ہے چلے چلو

سر تک پہنچ نہ جائے کوئی تیز گام لہر
یاں خوں کی موج تا بہ کمر ہے چلے چلو

جاں کے زیاں کا ڈر ہے طلب میں اگر تو ہو
ترک طلب میں بھی تو خطر ہے چلے چلو