اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے
اک غم کا سمندر ہے جو گھٹتا ہی نہیں ہے
کیا تیرا بدن جان گیا تیری انا کو
پہلے کی طرح مجھ سے لپٹتا ہی نہیں ہے
اسکولی کتابو ذرا فرصت اسے دے دو
بچہ مرا تتلی پہ جھپٹتا ہی نہیں ہے
کیا کیا نہیں کرتا ہے زمانہ اسے بد دل
دل ہے کہ تری اور سے ہٹتا ہی نہیں ہے
سب خالی گلاسوں کو ضیاؔ تھامے ہوئے ہیں
ساقی ہے کہ پیمانہ الٹتا ہی نہیں ہے
غزل
اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے
ضیا ضمیر