EN हिंदी
اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے | شیح شیری
ek dard ka sahra hai simaTta hi nahin hai

غزل

اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے

ضیا ضمیر

;

اک درد کا صحرا ہے سمٹتا ہی نہیں ہے
اک غم کا سمندر ہے جو گھٹتا ہی نہیں ہے

کیا تیرا بدن جان گیا تیری انا کو
پہلے کی طرح مجھ سے لپٹتا ہی نہیں ہے

اسکولی کتابو ذرا فرصت اسے دے دو
بچہ مرا تتلی پہ جھپٹتا ہی نہیں ہے

کیا کیا نہیں کرتا ہے زمانہ اسے بد دل
دل ہے کہ تری اور سے ہٹتا ہی نہیں ہے

سب خالی گلاسوں کو ضیاؔ تھامے ہوئے ہیں
ساقی ہے کہ پیمانہ الٹتا ہی نہیں ہے