EN हिंदी
اک چاند تیرگی میں ثمر روشنی کا تھا | شیح شیری
ek chand tirgi mein samar raushni ka tha

غزل

اک چاند تیرگی میں ثمر روشنی کا تھا

مینک اوستھی

;

اک چاند تیرگی میں ثمر روشنی کا تھا
پھر بھید کھل گیا وہ بھنور روشنی کا تھا

سورج پہ تو نے آنکھ تریری تھی یاد کر
بینائیوں پہ پھر جو اثر روشنی کا تھا

سب چاندنی کسی کی عنایت تھی چاند پر
اس داغ دار شو پہ کور روشنی کا تھا

مغرب کی مدبھری ہوئی راتوں میں کھو گیا
اس گھر میں کوئی لخت جگر روشنی کا تھا

دریا میں اس نے ڈوب کے کر لی ہے خودکشی
جس شے کا آسماں پہ سفر روشنی کا تھا

ذرے کو آفتاب بنایا تھا ہم نے اور
دھرتی پہ قہر شام و سحر روشنی کا تھا