اک بے نشان حرف صدا کی طرف نہ دیکھ
وہ دور جا چکا ہے ہوا کی طرف نہ دیکھ
آباد کر لے دیدہ و دل میں صنم کدے
کہتا ہے وہ کہ ایک خدا کی طرف نہ دیکھ
اپنی ہی عافیت کی تگ و دو میں محو رہ
اس سر زمین آہ و بکا کی طرف نہ دیکھ
اپنے افق کی تنگ فضا سے ہی کام رکھ
میدان حشر دشت بلا کی طرف نہ دیکھ
کر لے نہ اپنے شہر طلسمات کا اسیر
اس کی نگاہ ہوش ربا کی طرف نہ دیکھ
رکھ خاک دل پہ اپنے قدم احتیاط سے
موج ہوائے سمت نما کی طرف نہ دیکھ
غزل
اک بے نشان حرف صدا کی طرف نہ دیکھ
ارمان نجمی