اک بہانہ ہے تجھے یاد کئے جانے کا
کب سلیقہ ہے مجھے ورنہ غزل گانے کا
پھر سے بکھری ہے تری زلف مرے شانوں پر
وقت آیا ہے گئے وقت کو لوٹانے کا
جس کی تعبیر عطا کر دے مجھے وہ زلفیں
کون کہتا ہے کہ وہ خواب ہے دیوانے کا
پینے والے تو تجھے آنکھ سے پی لیتے ہیں
وہ تکلف ہی نہیں کرتے ہیں پیمانے کا
کس قدر ہاتھ یہاں صاف نظر آتے ہیں
فیض کتنا ہے ترے شہر پہ دستانے کا
آپ تو شعر میں مفہوم کی صورت ہوتے
لفظ ہوتا جو کوئی آپ کو پہنانے کا
اس کڑی دھوپ میں ہم ورنہ تو جل جائیں گے
وقت بسملؔ ہے یہی زلف کو لہرانے کا

غزل
اک بہانہ ہے تجھے یاد کئے جانے کا
طفیل بسمل