EN हिंदी
اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا | شیح شیری
ek bar jo bichhDe wo dobara nahin milta

غزل

اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا

اختر ملک

;

اک بار جو بچھڑے وہ دوبارہ نہیں ملتا
مل جائے کوئی شخص تو سارا نہیں ملتا

اس کی بھی نکل آتی ہے اظہار کی صورت
جس شخص کو لفظوں کا سہارا نہیں ملتا

پھر ڈوبنا یہ بات بہت سوچ لو پہلے
ہر لاش کو دریا کا کنارا نہیں ملتا

یہ سوچ کے دل پھر سے ہے آمادۂ الفت
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ملتا

کیوں لوگ بلائیں گے ہمیں بزم سخن میں
اپنا تو کسی سے بھی ستارہ نہیں ملتا

وہ شہر بھلا کیسے لگے اپنا جہاں پر
اک شخص بھی ڈھونڈے سے ہمارا نہیں ملتا