اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی
رو کے مسکرانا بھی مسکرا کے رونا بھی
رونقیں تھی شہروں میں برکتیں محلوں میں
اب کہاں میسر ہے گھر میں گھر کا ہونا بھی
دل کے کھیل میں ہر دم احتیاط لازم ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ورنہ یہ کھلونا بھی
دیدنی ہے ساحل پر یہ غروب کا منظر
بہہ رہا ہے پانی میں آسماں کا سونا بھی
رات ہی کے دامن میں چاند بھی ہیں تارے بھی
رات ہی کی قسمت ہے بے چراغ ہونا بھی
وقت آ پڑا ایسا وقت ہی نہیں ملتا
چھٹ گیا ہے برسوں سے اپنا رونا دھونا بھی
غزل
اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی
شاہد لطیف