اک اور سیہ رات ہے اس رات سے آگے
اب بات نکل جانے کو ہے بات سے آگے
کوشش تو بہت کرتا ہوں کھلتا ہی نہیں وہ
بیٹھا ہے کہیں شک سا ملاقات سے آگے
دینے کو بہت کچھ ہے مگر وقت سخاوت
ہوتا ہی نہیں کوئی مری ذات سے آگے
تھی کیسی طلب جس کو پکڑنے کے جنوں میں
دل چلتا رہا چار قدم ہات سے آگے
ہاں راحت دل جان نظر ہوں گے مناظر
دیکھا ہی نہیں کچھ بسر اوقات سے آگے
تھوڑا سا کہیں جمع بھی رکھ درد کا پانی
موسم ہے کوئی خشک سا برسات سے آگے
یوں ترک تعلق نہ کرو اس سے بھی شاہیںؔ
کچھ اچھے مراسم نہیں حالات سے آگے
غزل
اک اور سیہ رات ہے اس رات سے آگے
جاوید شاہین