EN हिंदी
اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں | شیح شیری
ek apne silsile mein to ahl-e-yaqin hun main

غزل

اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں

رئیس فروغ

;

اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں
چھ فیٹ تک ہوں اس کے علاوہ نہیں ہوں میں

روئے زمیں پہ چار عرب میرے عکس ہیں
ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں

ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن
سچ یہ ہے اک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں

ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ
اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں

جانے وہ کوئی جبر ہے یا اختیار ہے
دفتر میں تھوڑی دیر جو کرسی نشیں ہوں میں

میری رگوں کے نیل سے معلوم کیجئے
اپنی طرح کا ایک ہی زہر آفریں ہوں میں

مانا مری نشست بھی اکثر دلوں میں ہے
اینجائنا کی طرح مگر دل نشیں ہوں میں

میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں