اک عکس دل کے تٹ سے بے اختیار پھوٹے
جب چاند اس نگر کی جھیلوں کے پار پھوٹے
صدقہ اتارنے کو تیرے مدھر نین کا
ابھرے کئی ستارے غنچے ہزار پھوٹے
وہ اور میں ندی کے نغموں پہ بہتی ناؤ
ناؤ میں اس کے مکھ سے اجلا نکھار پھوٹے
کانوں میں اب بھی کھنکیں گجرے ترے گجردم
اس گھر سے جب دھوئیں کا نیلا غبار پھوٹے
مجھ کو جھلا رہے ہیں گیتوں کے جھولنے میں
نغمے جو پائلوں کے سپنوں کے دوار پھوٹے
اس سانولے بدن پر مہکیں خنک سویرے
ان مست انکھڑیوں سے رنگوں کی پھوار پھوٹے
مت رو پھر آؤں گا میں پربت پہ تجھ سے ملنے
جب برف زار پگھلے جب آبشار پھوٹے
غزل
اک عکس دل کے تٹ سے بے اختیار پھوٹے
ناصر شہزاد