اک اجنبی کی طرح ہے یہ زندگی مرے ساتھ
جو وقت کاٹ رہی ہے ہنسی خوشی مرے ساتھ
سنا رہا ہوں کسی اور کو کتھا اپنی
کھڑا ہوا ہے کوئی اور آدمی مرے ساتھ
سفر میں پیڑ کا سایا نہیں ملے گا مجھے
بس اتنا سنتے ہی دیوار چل پڑی مرے ساتھ
وہ مجھ کو پہلے بھی تنہا کہاں سمجھتا تھا
پھر اس نے میری اداسی بھی دیکھ لی مرے ساتھ
سنا ہے حال بتانے سے درد گھٹتا ہے
سو ایک روز چراغوں نے بات کی مرے ساتھ
الاؤ جلتا رہا جب تلک میں چلتا رہا
میں رک گیا تو کہانی بھی رک گئی مرے ساتھ
غزل
اک اجنبی کی طرح ہے یہ زندگی مرے ساتھ
عابد ملک