اک عجب وحشت سے دل سینوں میں بے کل ہو گئے
چاند کیا نکلا خوشی سے لوگ پاگل ہو گئے
دھوپ سے سہمے پرندوں کو اماں ملتی نہیں
سختئ مہر خزاں سے خشک جنگل ہو گئے
راہ میں چھاؤں ذرا سی کر گئی مجھ کو خراب
دو گھڑی رکنے سے میرے پاؤں بوجھل ہو گئے
اب تو بھرتا ہی نہیں بے آب آئینوں میں رنگ
کون سے منظر مری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
بے حسی آخر نکل آئی مرے غم کا علاج
برف رکھنے سے مرے گھاؤ سبھی شل ہو گئے
کیا بتاؤں بد گماں دل میں تمناؤں کا حال
اس زمین شور میں سب پیڑ بے پھل ہو گئے
غزل
اک عجب وحشت سے دل سینوں میں بے کل ہو گئے
جاوید شاہین