EN हिंदी
اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی | شیح شیری
ek ajab kaifiyat-e-hosh-ruba tari thi

غزل

اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی

سرور ارمان

;

اک عجب کیفیت ہوش ربا طاری تھی
قریۂ جاں میں کسی جشن کی تیاری تھی

سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختۂ دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی

خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابض تخت وراثت کی ریاکاری تھی

ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی
ہجر بر دوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی

اور سب ٹھیک تھا بس ہم سے بھلائی نہ گئی
تیرے خاموش رویے میں جو بے زاری تھی

اک قیامت تھی کہ رسوا سر بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی

تیرے محکوم ترے حاشیہ بر داروں کی
صرف وردی ہی نہیں سوچ بھی سرکاری تھی