اک ایسی ان کہی تحریر کرنے جا رہا ہوں
ہنر کو اور بھی گمبھیر کرنے جا رہا ہوں
مرے احساس میں بے چین جس کے خال و خد ہیں
اسے ہر آنکھ میں تصویر کرنے جا رہا ہوں
میں فرہاد معانی تیشۂ حرف و بیاں سے
سخن کی جھیل جوئے شیر کرنے جا رہا ہوں
دلوں کے درمیاں رستوں میں کتنے خم پڑے ہیں
میں ان کو پھر سے سیدھا تیر کرنے جا رہا ہوں
وہ جس میں بے نواؤں کے لہو کی سرخیاں ہیں
کلاہ شاہ لیر و لیر کرنے جا رہا ہوں
مجھے زنجیرنا ہے اپنے حصے کا زمانہ
سو اپنے آپ کو تسخیر کرنے جا رہا ہوں
سدا تعبیر در تعبیر جو رکھے سفر میں
میں وہ خواب دگر تعمیر کرنے جا رہا ہوں
غزل
اک ایسی ان کہی تحریر کرنے جا رہا ہوں
جلیل عالیؔ