اک ایسا موڑ سر رہ گزر بھی آئے گا
وفور خوف میں لطف سفر بھی آئے گا
یہ اس کا شہر ہے اس کی مہک بتاتی ہے
ذرا تلاش کرو اس کا گھر بھی آئے گا
اسی یقین پر ہر ظلم سہتے رہتے ہیں
کہ شاخ صبر پہ اک دن ثمر بھی آئے گا
قریب منزل جاناں سرور دل کے ساتھ
جنوں کی فتنہ طرازی سے ڈر بھی آئے گا
کھلے رہیں گے دریچے اس آس پر گھر کے
کبھی تو جھونکا ہوا کا ادھر بھی آئے گا
چھپائے پھرنے سے کب عشق و مشک چھپتے ہیں
چڑھے گا چاند تو سب کو نظر بھی آئے گا
اب اس کے بند کواڑوں کے پاس بیٹھ رہیں
جو شخص گھر سے گیا ہے وہ گھر بھی آئے گا
سرشک خوں کی طرح لفظ آنکھ سے ٹپکیں
تو پھر دعا میں منورؔ اثر بھی آئے گا

غزل
اک ایسا موڑ سر رہ گزر بھی آئے گا
منور ہاشمی