EN हिंदी
اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے | شیح شیری
ek adhuri si kahani main sunata kaise

غزل

اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے

آلوک مشرا

;

اک ادھوری سی کہانی میں سناتا کیسے
یاد آتا بھی نہیں خواب وہ بکھرا کیسے

کتنے سایوں سے بھری ہے یہ حویلی دل کی
ایسی بھگدڑ میں کوئی شخص ٹھہرتا کیسے

پھول زخموں کے یہاں اور بھی چن لوں لیکن
اپنا دامن میں کروں اور کشادہ کیسے

دکھ کے سیلاب میں ڈوبا تھا وہ خود ہی اتنا
میری آنکھو تمہیں دیتا وہ دلاسہ کیسے

کانچ کے زار سے بس دیکھتا رہتا تھا تمہیں
بند شیشوں سے میں آواز لگاتا کیسے

اس کا پھن میں نے بہت دیر تلک کچلا تھا
رہ گیا سانپ ترے درد کا زندہ کیسے

اب تو آنکھوں میں سیاہی سی بھری رہتی ہے
ایسے عالم میں کوئی خواب ہو اجلا کیسے

داغ ہی داغ ابھر آئے مرے چہرہ پر
رنگ میرا اے مصور ہوا بھدا کیسے

خشک مٹی میں پڑا تھا مرے دل کا پودھا
اس کی شاخوں پہ کوئی پھول بھی آتا کیسے