EN हिंदी
اک آس کا دیا تو دل میں جلاتے جاؤ | شیح شیری
ek aas ka diya to dil mein jalate jao

غزل

اک آس کا دیا تو دل میں جلاتے جاؤ

شکیل گوالیاری

;

اک آس کا دیا تو دل میں جلاتے جاؤ
کس موڑ پر ملوگے یہ تو بتاتے جاؤ

اس در سے جا ملیں گے یہ جتنے راستے ہیں
کانٹے ہٹاتے جاؤ کلیاں بچھاتے جاؤ

پتھر میں بھی چھپا ہے نغمات کا خزانہ
یہ شرط ہے کہ اس تک تم گنگناتے جاؤ

جب میکدے سے لوٹو پھر کیا کسی سے چھپنا
جب میکدے کو جاؤ چھپتے چھپاتے جاؤ

اے منکرین الفت میں اس کی یاد میں ہوں
ایک ایک آتے جاؤ ایمان لاتے جاؤ

جلدی بھی کیا ہے آخر اتنی شکیلؔ صاحب
اب آئے ہو تو سب سے ملتے ملاتے جاؤ