اک آہ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
اب ہم بھی داخل صف اغیار ہو گئے
جس درد کو سمجھتے تھے ہم ان کا فیض خاص
اس درد کے بھی لاکھ خریدار ہو گئے
جن حوصلوں سے میرا جنوں مطمئن نہ تھا
وہ حوصلے زمانے کے معیار ہو گئے
ہر وعدہ جیسے حرف غلط تھا سراب تھا
ہم تو نثار جرأت انکار ہو گئے
سرسبز پتیوں کا لہو چوس چوس کر
کتنے ہی پھول رونق گلزار ہو گئے
زیدیؔ نے تازہ شعر سنائے برنگ خاص
ہم بھی خدائے شوخیٔ افکار ہو گئے
غزل
اک آہ زیر لب کے گنہ گار ہو گئے
علی جواد زیدی