عجز اہل ستم کی بات کرو
عشق کے دم قدم کی بات کرو
بزم اہل طرب کو شرماؤ
بزم اصحاب غم کی بات کرو
بزم ثروت کے خوش نشینوں سے
عظمت چشم نم کی بات کرو
ہے وہی بات یوں بھی اور یوں بھی
تم ستم یا کرم کی بات کرو
خیر ہیں اہل دیر جیسے ہیں
آپ اہل حرم کی بات کرو
ہجر کی شب تو کٹ ہی جائے گی
روز وصل صنم کی بات کرو
جان جائیں گے جاننے والے
فیضؔ فرہاد و جم کی بات کرو
غزل
عجز اہل ستم کی بات کرو
فیض احمد فیض