ادراک ہی محال ہے خواب و خیال کا
دل کے ورق پہ عکس ہے اس کے جمال کا
روتی نہیں ہوں میں کبھی دنیا کے سامنے
رکھتی ہوں حوصلہ میں نہایت کمال کا
ہیں مرحلے عجیب یہ عشق و خرد کے بھی
لمحوں میں کر رہی ہوں سفر ماہ و سال کا
درویش ہے کوئی تو قلندر ولی کوئی
بندوں نے پایا عشق میں رتبہ کمال کا
اتنے سکوں سے میں نے کیا عشق کا سفر
آیا نہیں گمان کسی احتمال کا
کیسا عجیب دور ہے موجودہ دور بھی
مفہوم کوئی سمجھے نہ دل کے سوال کا
دم گھٹ رہا ہو جب مرا اپنے وجود میں
کیا خاک تذکرہ ہو فراق و وصال کا
کرتی نہیں سبیلہؔ گلہ میں یہ سوچ کر
ساتھی نہیں یہاں کوئی رنج و ملال کا

غزل
ادراک ہی محال ہے خواب و خیال کا
سبیلہ انعام صدیقی