ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے
ادھر آنکھ کچھ بھی چھپاتی نہیں ہے
پتہ ہے رہائی کی دشواریاں پر
یہ قید قفس بھی تو بھاتی نہیں ہے
کمی رہ گئی ہوگی کچھ تو کشش میں
سدا لوٹ کر یوں ہی آتی نہیں ہے
مجھے راس ویرانیاں آ گئی ہیں
تری یاد بھی اب ستاتی نہیں ہے
خفا ہے کرم فرما ہے کون جانے
ہوا جب دیے کو بجھاتی نہیں ہے
اگر ہو گئے سوچ میں آپ بوڑھے
تو بارش بدن کو جلاتی نہیں ہے
گماں پیار کا ہو رہا تب سے نیرجؔ
قسم جب سے میری وہ کھاتی نہیں ہے
غزل
ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے
نیرج گوسوامی