EN हिंदी
ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے | شیح شیری
idhar ye zaban kuchh batati nahin hai

غزل

ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے

نیرج گوسوامی

;

ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے
ادھر آنکھ کچھ بھی چھپاتی نہیں ہے

پتہ ہے رہائی کی دشواریاں پر
یہ قید قفس بھی تو بھاتی نہیں ہے

کمی رہ گئی ہوگی کچھ تو کشش میں
سدا لوٹ کر یوں ہی آتی نہیں ہے

مجھے راس ویرانیاں آ گئی ہیں
تری یاد بھی اب ستاتی نہیں ہے

خفا ہے کرم فرما ہے کون جانے
ہوا جب دیے کو بجھاتی نہیں ہے

اگر ہو گئے سوچ میں آپ بوڑھے
تو بارش بدن کو جلاتی نہیں ہے

گماں پیار کا ہو رہا تب سے نیرجؔ
قسم جب سے میری وہ کھاتی نہیں ہے