ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے
سڑک پہ آؤ سمندر میں آزماؤ مجھے
مرا وجود اگر راستے میں حائل ہے
تم اپنی راہ نکالو پھلانگ جاؤ مجھے
سوائے میرے نہیں کوئی جارحانہ قدم
میں اک حقیر پیادہ سہی بڑھاؤ مجھے
اسی میں میری تمہاری نجات مضمر ہے
کہ میں بناؤں تمہیں اور تم مٹاؤ مجھے
گزرنے والا ہر اک لمحہ میرا قاتل ہے
خدا کے واسطے مارو اسے بچاؤ مجھے
جمی ہوئی ہیں مری لاش پر نگاہیں کیوں
میں کوئی آخری خواہش نہیں دباؤ مجھے
خوشی مناتے ہو کہتے ہو مجھ کو عید نشاطؔ
مگر میں خون کی ہولی بھی ہوں جلاؤ مجھے
غزل
ادھر ادھر کے حوالوں سے مت ڈراؤ مجھے
ارتضی نشاط