ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
فلک کو مجھ سے کیوں پرخاش و کیں ہے
نہ دیکھا اپنے بسمل کا تماشا
قریب آ کر وہ کتنا دوربیں ہے
یہ اچھا ہے تو اچھا غیر کو بھی
ستاؤ اور پوچھو کیوں غمیں ہے
ہمیں صورت دکھائے کیا تمنا
کہ عاشق جس کے ہیں پردہ نشیں ہے
یہ مجھ سے شکوہ ہے اللہ رے شوخی
کہ میرے غم سے تو اندوہ گیں ہے
یہ کیسا تفرقہ ہجراں نے ڈالا
کہیں کیا ہم کہیں ہیں دل کہیں ہے
نہ پوچھو شیفتہؔ کا حال صاحب
یہ حالت ہے کہ اپنے میں نہیں ہے
غزل
ادھر مائل کہاں وہ مہ جبیں ہے
مصطفیٰ خاں شیفتہ