ادھر بھی دیکھ ذرا بے قرار ہم بھی ہیں
ترے فدائی ترے جاں نثار ہم بھی ہیں
بتو حقیر نہ سمجھو ہمیں خدا کے لیے
غریب بندۂ پرور دگار ہم بھی ہیں
کہاں کی توبہ یہ موقع ہے پھول اڑانے کا
چمن ہے ابر ہے ساقی ہے یار ہم بھی ہیں
مثال غنچہ ادھر خندہ زن ہے وہ گل تر
مثال ابر ادھر اشک بار ہم بھی ہیں
جگر نے دل سے کہا درد ہجر جاناں میں
کہ ایک تو ہی نہیں بے قرار ہم بھی ہیں
مدام سامنے غیروں کے بے نقاب رہے
اسی پہ کہتے ہو تم پردہ دار ہم بھی ہیں
ہمیں بھی دیجئے اپنی گلی میں تھوڑی جگہ
غریب بلکہ غریب الدیار ہم بھی ہیں
شگفتہ باغ سخن ہے ہمیں سے اے صابرؔ
جہاں میں مثل نسیم بہار ہم بھی ہیں
غزل
ادھر بھی دیکھ ذرا بے قرار ہم بھی ہیں
فضل حسین صابر